دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے
ہر اندھیرے میں دیا خواب کا جل سکتا ہے
عشق وہ آگ جو برسوں میں سلگتی ہے کبھی
دل وہ پتھر جو کسی آن پگھل سکتا ہے
ہر نراشا ہے لیے ہاتھ میں آشا بندھن
کون جنجال سے دنیا کے نکل سکتا ہے
جس نے ساجن کے لیے اپنے نگر کو چھوڑا
سر اٹھا کر وہ کسی شہر میں چل سکتا ہے
میرا محبوب ہے وہ شخص جو چاہے تو نعیمؔ
سوکھی ڈالی کو بھی گلشن میں بدل سکتا ہے
غزل
دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے
حسن نعیم