EN हिंदी
دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے | شیح شیری
dil mein ho aas to har kaam sambhal sakta hai

غزل

دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے

حسن نعیم

;

دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے
ہر اندھیرے میں دیا خواب کا جل سکتا ہے

عشق وہ آگ جو برسوں میں سلگتی ہے کبھی
دل وہ پتھر جو کسی آن پگھل سکتا ہے

ہر نراشا ہے لیے ہاتھ میں آشا بندھن
کون جنجال سے دنیا کے نکل سکتا ہے

جس نے ساجن کے لیے اپنے نگر کو چھوڑا
سر اٹھا کر وہ کسی شہر میں چل سکتا ہے

میرا محبوب ہے وہ شخص جو چاہے تو نعیمؔ
سوکھی ڈالی کو بھی گلشن میں بدل سکتا ہے