دل میں ہر چند آرزو تھی بہت
کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت
سنگ منزل یہ چھیڑتا ہے مجھے
آ تجھے میری جستجو تھی بہت
اے ہوس! دیکھ داغ داغ جگر
تو بھی مشتاق رنگ و بو تھی بہت
کون ہے جس سے میں نہیں الجھا
گو مری طبع صلح جو تھی بہت
بڑھ گئی تجھ سے مل کے تنہائی
روح جویائے ہم سبو تھی بہت
اک تری ہی نگاہ میں نہ جچے
شہر میں ورنہ آبرو تھی بہت
غزل
دل میں ہر چند آرزو تھی بہت
باصر سلطان کاظمی