دل میں ہمارے اب کوئی ارماں نہیں رہا
وہ اہتمام گردش دوراں نہیں رہا
پیش نظر وہ خسرو خوباں نہیں رہا
میری حیات شوق کا ساماں نہیں رہا
سمجھا رہا ہوں یوں دل مضطر کو ہجر میں
وہ کون ہے جو غم سے پریشاں نہیں رہا
دیکھا ہے میں نے گیسوئے کافر کا معجزہ
تار نفس بھی میرا مسلماں نہیں رہا
اشکوں کے ساتھ ساتھ کچھ ارماں نکل گئے
بے چینیوں کا دل میں وہ طوفاں نہیں رہا
اے چارہ ساز سعی مسلسل فضول ہے
تیرا مریض قابل درماں نہیں رہا
اس کی حیات اس کے لیے موت اے عزیزؔ
جس پر کہ اس نگاہ کا احساں نہیں رہا
غزل
دل میں ہمارے اب کوئی ارماں نہیں رہا
عزیز وارثی