EN हिंदी
دل میں ہے کیا عذاب کہے تو پتہ چلے | شیح شیری
dil mein hai kya azab kahe to pata chale

غزل

دل میں ہے کیا عذاب کہے تو پتہ چلے

آتش اندوری

;

دل میں ہے کیا عذاب کہے تو پتہ چلے
دیوار خاموشی کی ڈھے تو پتہ چلے

سب کچھ ہی بانٹنے کو چلی آتی کیوں ندی
اس کی طرح سے کوئی بہے تو پتہ چلے

بیٹے تو جانتا نہیں ہے ماں کی اہمیت
ماں کی طرح تو درد سہے تو پتہ چلے

کیسے بتائے کوئی جیو کیسے زندگی
تو پنچھیوں کے ساتھ رہے تو پتہ چلے

پینے کو پانی بھی نہ ہو روٹی کی بات کیا
نیتا جی بھوک تو یوں سہے تو پتہ چلے