دل میں اوروں کے لئے کینہ و کد رکھتے ہیں
لوگ اخلاص کے پردے میں حسد رکھتے ہیں
آپ سے ہاتھ ملاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
آپ تو پیار کے رشتوں میں بھی حد رکھتے ہیں
یہ ضروری نہیں دل ان کے ہوں حق سے معمور
وہ جو چہروں پہ عبادت کی سند رکھتے ہیں
کیا پتہ کب کسی رشتے کا بھروسہ ٹوٹے
ایسے لوگوں سے نہ ملئے جو حسد رکھتے ہیں
دفن ہو جائے نہ احساس محبت دل میں
اب کہاں دل کا خیال اہل خرد رکھتے ہیں
کون ہوتا ہے مصیبت میں کسی کا سالمؔ
ہم عبث آپ سے امید مدد رکھتے ہیں
غزل
دل میں اوروں کے لئے کینہ و کد رکھتے ہیں
سالم شجاع انصاری