EN हिंदी
دل محو تماشائے لب بام نہیں ہے | شیح شیری
dil mahw-e-tamasha-e-lab-e-baam nahin hai

غزل

دل محو تماشائے لب بام نہیں ہے

نظر حیدرآبادی

;

دل محو تماشائے لب بام نہیں ہے
پیغام بہ اندازۂ پیغام نہیں ہے

اے جان گراں سیر ترا رہبر و رہزن
ہے کون اگر وقت سبک گام نہیں ہے

جو تیرے دیار‌ رخ و کاکل میں نہ گزرے
وہ صبح نہیں ہے وہ مری شام نہیں ہے

اس پرسش حالات کے انداز کے قرباں
کس طرح کہوں میں مجھے آرام نہیں ہے

کیا بات ہے اے تلخئ آزار محبت
فہرست شہیداں میں مرا نام نہیں ہے

مے خانے میں اور شورش ایام در آئے
افسوس کہ ہاتھوں میں مرے جام نہیں ہے

اکثر لب شاعر سے جو سنتا ہے زمانہ
وہ زیست کی آواز ہے الہام نہیں ہے

اے مست مے شوق سنبھال اپنے سبو کو
دنیا ہے یہ خم‌ خانۂ خیام نہیں ہے

اک طرفہ تماشا ہے نظرؔ تیری طبیعت
شاعر بھی ہے اور شہر میں بدنام نہیں ہے