EN हिंदी
دل لیا جس نے بے وفائی کی | شیح شیری
dil liya jis ne bewafai ki

غزل

دل لیا جس نے بے وفائی کی

مصطفیٰ خاں شیفتہ

;

دل لیا جس نے بے وفائی کی
رسم ہے کیا یہ دل ربائی کی

تذکرہ صلح غیر کا نہ کرو
بات اچھی نہیں لڑائی کی

تم کو اندیشۂ گرفتاری
یاں توقع نہیں رہائی کی

وصل میں کس طرح ہوں شادی مرگ
مجھ کو طاقت نہیں جدائی کی

دل نہ دینے کا ہم کو دعویٰ ہے
کس کو ہے لاف دل ربائی کی

ایک دن تیرے گھر میں آنا ہے
بخت و طالع نے گر رسائی کی

دل لگایا تو ناصحوں کو کیا
بات جو اپنے جی میں آئی کی

شیفتہؔ وہ کہ جس نے ساری عمر
دین داری و پارسائی کی

آخر کار مے پرست ہوا
شان ہے اس کی کبریائی کی