دل لیا جس نے بے وفائی کی
رسم ہے کیا یہ دل ربائی کی
تذکرہ صلح غیر کا نہ کرو
بات اچھی نہیں لڑائی کی
تم کو اندیشۂ گرفتاری
یاں توقع نہیں رہائی کی
وصل میں کس طرح ہوں شادی مرگ
مجھ کو طاقت نہیں جدائی کی
دل نہ دینے کا ہم کو دعویٰ ہے
کس کو ہے لاف دل ربائی کی
ایک دن تیرے گھر میں آنا ہے
بخت و طالع نے گر رسائی کی
دل لگایا تو ناصحوں کو کیا
بات جو اپنے جی میں آئی کی
شیفتہؔ وہ کہ جس نے ساری عمر
دین داری و پارسائی کی
آخر کار مے پرست ہوا
شان ہے اس کی کبریائی کی
غزل
دل لیا جس نے بے وفائی کی
مصطفیٰ خاں شیفتہ