EN हिंदी
دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا | شیح شیری
dil le ke hasinon ne ye dastur nikala

غزل

دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا

مضطر خیرآبادی

;

دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا
دل جس کا لیا اس کو بہت دور نکالا

زاہد کو کسی اور کی باتیں نہیں آتیں
آیا تو وہی تذکرۂ حور نکالا

دشمن کو عیادت کے لیے یار نے بھیجا
اچھا یہ علاج دل رنجور نکالا

اے تیر ستم چل تری دعوت ہے مرے گھر
زخم‌ دل ناشاد نے انکور نکالا

وہ تذکرۂ غیر پہ جھنجھلا کے یہ بولے
پھر آپ نے مضطرؔ وہی مذکور نکالا