دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا
دل جس کا لیا اس کو بہت دور نکالا
زاہد کو کسی اور کی باتیں نہیں آتیں
آیا تو وہی تذکرۂ حور نکالا
دشمن کو عیادت کے لیے یار نے بھیجا
اچھا یہ علاج دل رنجور نکالا
اے تیر ستم چل تری دعوت ہے مرے گھر
زخم دل ناشاد نے انکور نکالا
وہ تذکرۂ غیر پہ جھنجھلا کے یہ بولے
پھر آپ نے مضطرؔ وہی مذکور نکالا
غزل
دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا
مضطر خیرآبادی