دل لگی باد خزاں کر لے گلستانوں کے ساتھ
ہو چلے ہیں ہم بھی کچھ مانوس ویرانوں کے ساتھ
حشر سے کچھ کم نہ تھی گزری جو اے رب جلیل
تیرے انسانوں کے ہاتھوں تیرے انسانوں کے ساتھ
عقل جب رک جائے تو لازم ہے مہمیز جنوں
کوئی دیوانہ بھی ہوتا کاش فرزانوں کے ساتھ
زور پر ہے زہد کے پردے میں جنگ زر گری
شعبدہ بازی وہی ہے سادہ ایمانوں کے ساتھ
پستیوں کے سائے بڑھ کر چوٹیوں پر چھا گئے
جھونپڑے ٹکرا گئے منظورؔ ایوانوں کے ساتھ
غزل
دل لگی باد خزاں کر لے گلستانوں کے ساتھ
منظور احمد منظور