EN हिंदी
دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی | شیح شیری
dil-lagi apni tere zikr se kis raat na thi

غزل

دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی

حیدر علی آتش

;

دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی
صبح تک شام سے یاہو کے سوا بات نہ تھی

التجا تجھ سے کب اے قبلۂ حاجات نہ تھی
تیری درگاہ میں کس روز مناجات نہ تھی

اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے
نہ ملاقات تھی جب تک کہ ملاقات نہ تھی

غنچۂ گل کو نہ ہنسنا تھا تری صورت سے
چھوٹے سے منہ کی سزاوار بڑی بات نہ تھی

ابتدا سے تجھے موجود سمجھتا تھا میں
مرے تیرے کبھی پردے کی ملاقات نہ تھی

اے نسیم سحری بہر اسیران قفس
تحفہ تر نکہت گل سے کوئی سوغات نہ تھی

ان دنوں عشق رلاتا تھا ہمیں صورت ابر
کون سی فصل تھی وہ جس میں کہ برسات نہ تھی

کیا کہوں اس کے جو مجھ پر کرم پنہاں تھے
ظاہری یار سے ہر چند ملاقات نہ تھی

اپنے باندھے ہوئے گاتی تجھے دیکھا پھڑکا
دل ربا شے تھی مری جان تری گات نہ تھی

اک میں مل گئے اے شاہ سوار اہل نیاز
ناز معشوق تھا تو سن کی ترے لات نہ تھی

لب کے بوسہ کا ہے انکار تعجب اے یار
پھیرے سائل سے جو منہ کو وہ تری ذات نہ تھی

کمر یار تھی ازبسکہ نہایت نازک
سوجھتی بندش مضموں کی کوئی گھات نہ تھی

ان دنوں ہوتا تھا تو گھر میں ہمارے شب باش
روز روشن سے کم اے مہر لقا رات نہ تھی

بے شعوروں نے نہ سمجھا تو نہ سمجھا آتشؔ
نکتہ سنجوں کو لطیفہ تھی تری بات نہ تھی