دل لگایا ہے تو نفرت بھی نہیں کر سکتے
اب ترے شہر سے ہجرت بھی نہیں کر سکتے
آخری وقت میں جینے کا سہارا ہے یہی
تیری یادوں سے بغاوت بھی نہیں کر سکتے
جھوٹ بولے تو جہاں نے ہمیں فن کاری کہا
اب تو سچ کہنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے
اس نئے دور نے ماں باپ کا حق چھین لیا
اپنے بچوں کو نصیحت بھی نہیں کر سکتے
ہم اجالوں کے پیمبر تو نہیں ہیں لیکن
کیا چراغوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
قدر انسان کی گھٹ گھٹ کے یہاں تک پہنچی
اب تو قیمت میں رعایت بھی نہیں کر سکتے
فن کی تعظیم میں مر جاؤ گے بھوکے داناؔ
تم تو غزلوں کی تجارت بھی نہیں کر سکتے
غزل
دل لگایا ہے تو نفرت بھی نہیں کر سکتے
عباس دانا