EN हिंदी
دل کو پھر امید گرمانے لگی | شیح شیری
dil ko phir ummid garmane lagi

غزل

دل کو پھر امید گرمانے لگی

جگر بریلوی

;

دل کو پھر امید گرمانے لگی
پھر مجھے دنیا نظر آنے لگی

دل پہ ڈالی ہے کسی نے پھر نگاہ
سانس پھر آنے لگی جانے لگی

نقش پھر جمنے لگا تدبیر کا
عقل پھر کچھ دل کو سمجھانے لگی

نزع میں آنے لگی پھر کس کی یاد
آرزوئے زیست تڑپانے لگی

ہو چلا ہے پھر کسی کا انتظار
کھنچ کے جان آنکھوں میں پھر آنے لگی

رنج بھی آخر کو راحت بن گیا
شب ہجوم غم سے نیند آنے لگی

پھر وہی بیتابیٔ دل ہے جگرؔ
پھر کسی کی یاد تڑپانے لگی