EN हिंदी
دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے | شیح شیری
dil ko paiham dard se do-chaar rahne dijiye

غزل

دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے

صادق اندوری

;

دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے
کچھ تو قائم عشق کا معیار رہنے دیجیے

دل کی دنیا غم سراپا غم کی دنیا کیا کہوں
کائنات دل کو غم آثار رہنے دیجیے

کس طرف جائے غریب ادبار کا مارا ہوا
اس مسافر کو پس دیوار رہنے دیجیے

آ رہی ہے ساز دل کے تار میں لرزش ابھی
اپنی نظروں کو شریک کار رہنے دیجیے

ساری دنیا ہو چکی بےگانہ ہوش و خرد
کم سے کم صادقؔ کو تو ہشیار رہنے دیجیے