دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے
کچھ تو قائم عشق کا معیار رہنے دیجیے
دل کی دنیا غم سراپا غم کی دنیا کیا کہوں
کائنات دل کو غم آثار رہنے دیجیے
کس طرف جائے غریب ادبار کا مارا ہوا
اس مسافر کو پس دیوار رہنے دیجیے
آ رہی ہے ساز دل کے تار میں لرزش ابھی
اپنی نظروں کو شریک کار رہنے دیجیے
ساری دنیا ہو چکی بےگانہ ہوش و خرد
کم سے کم صادقؔ کو تو ہشیار رہنے دیجیے
غزل
دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے
صادق اندوری