EN हिंदी
دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں | شیح شیری
dil ko laTka liya hai gesu mein

غزل

دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں

آغا حجو شرف

;

دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں
جب وہ بیٹھیں ہیں آ کے پہلو میں

ڈبڈباتے ہی آنکھیں پتھرائی
کیا ہی حسرت بھری تھی آنسو میں

سرکشی کی جو بوئے گیسو نے
چھپ رہا مشک ناف آہو میں

زندگی بھر کریں گے اس کی تلاش
چل بسیں گے اسی تکابو میں

درد دل روئی سے نہ سکوانا
آگ ہے اس طرف کے پہلو میں

کون کہتا ہے خال مشکیں ہے
دل ہے کسریٰ کا طاق ابرو میں

بزم میں ان کی جب گئے ہیں ہم
عطر بھر بھر دیا ہے چلو میں

بلبلوں میں ہمارا دل ہوگا
روح ہوگی گلوں کی خوشبو میں

دل تو تھا اختیار سے باہر
اب جگر بھی نہیں ہے قابو میں

بحر غم میں مریں گے ڈوب کے ہم
قبر اک دن بنے گی ٹاپو میں

خوں رلاتی ہیں انکھڑیاں تیری
ایک ہی ہیں یہ دونوں جادو میں

حوریں پاسنگ کی کریں گی ہوس
مل وہ بیٹھیں گے جس ترازو میں

کس کو غش آ گیا جو چھڑکو گے
کیوں بھرا ہے گلاب چلو میں

عالم وجد دل کو رہتا ہے
مست ہیں نعرہ ہائے یاہو میں

اے شرفؔ جب مزا ہے رونے کا
نکلیں لخت جگر بھی آنسو میں