دل کو جب حاصل صفائی ہو گئی
جلوہ گر بت میں خدائی ہو گئی
ذکر وصل آ آ کے لب پر رہ گیا
یہ بھی کیا عاشق کی آئی ہو گئی
وار کیا شیطان کا اب چل سکے
وہ بھی اک گندم نمائی ہو گئی
نور ہر پتھر میں پایا طور کا
چشم دل کو روشنائی ہو گئی
بیچ سے پردہ دوئی کا اٹھ گیا
تو خودی خود پھر خدائی ہو گئی
غزل
دل کو جب حاصل صفائی ہو گئی
دتا تریہ کیفی