EN हिंदी
دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں | شیح شیری
dil ko har gam pe dhaDke se lage rahte hain

غزل

دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں

نجیب احمد

;

دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں
تجھ کو کھو دینے کے خدشے سے لگے رہتے ہیں

سر تو کٹ جاتے ہیں جسموں سے مگر صدیوں تک
خاک پر خون کے دھبے سے لگے رہتے ہیں

جھاڑ پونچھ ایک مرے کام نہیں آ پائی
در و دیوار پہ جالے سے لگے رہتے ہیں

پیاس اڑتی ہے لب ہجر پہ مانند غبار
وصل کی جھیل پہ پہرے سے لگے رہتے ہیں

دشت سے شہر میں تنہائی کے ڈر لے آئے
شہر میں بھی یہی کھٹکے سے لگے رہتے ہیں

خواب جو دیکھا نہیں ہم نے سر خواب نجیبؔ
اس کی تعبیر کے دھڑکے سے لگے رہتے ہیں