دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں
تجھ کو کھو دینے کے خدشے سے لگے رہتے ہیں
سر تو کٹ جاتے ہیں جسموں سے مگر صدیوں تک
خاک پر خون کے دھبے سے لگے رہتے ہیں
جھاڑ پونچھ ایک مرے کام نہیں آ پائی
در و دیوار پہ جالے سے لگے رہتے ہیں
پیاس اڑتی ہے لب ہجر پہ مانند غبار
وصل کی جھیل پہ پہرے سے لگے رہتے ہیں
دشت سے شہر میں تنہائی کے ڈر لے آئے
شہر میں بھی یہی کھٹکے سے لگے رہتے ہیں
خواب جو دیکھا نہیں ہم نے سر خواب نجیبؔ
اس کی تعبیر کے دھڑکے سے لگے رہتے ہیں

غزل
دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں
نجیب احمد