EN हिंदी
دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے | شیح شیری
dil ko halak-e-jalwa-e-jaanan banaiye

غزل

دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے

محمد علی جوہرؔ

;

دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے
اس بت کدے کو کعبۂ ایماں بنائیے

طوفان بن کے اٹھیے جہان خراب میں
ہستی کو اک شرارۂ رقصاں بنائیے

دوڑائیے وہ روح کہ ہر ذرہ جاگ اٹھے
اجڑے ہوئے وطن کو گلستاں بنائیے

پھر دیجئے نگاہ کو پیغام جستجو
منزل سے کیوں نظر کو گریزاں بنائیے

آخر تو ختم ہوں گی کہیں قید کی حدیں
یوسف کو آپ رونق زنداں بنائیے

پھر اپنے دل میں کیجئے پیدا کوئی تڑپ
پھر مشکل حیات کو آساں بنائیے

جوہرؔ اسیریوں کی کوئی انتہا بھی ہے
آزاد اک نظام پریشاں بنائیے