EN हिंदी
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے | شیح شیری
dil ko bhi gham ka saliqa na tha pahle pahle

غزل

دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے

کشور ناہید

;

دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے

دل تھا شب زاد اسے کس کی رفاقت ملتی
خواب تعبیر سے چھپتا رہا پہلے پہلے

پہلے پہلے وہی انداز تھا دریا جیسا
پاس آ آ کے پلٹتا رہا پہلے پہلے

آنکھ آئنوں کی حیرت نہیں جاتی اب تک
ہجر کا گھاؤ بھی اس نے دیا پہلے پہلے

کھیل کرنے کو بہت تھے دل خواہش دیدہ
کیوں ہوا دیکھ جلایا دیا پہلے پہلے

عمر آئندہ کے خوابوں کو پیاسا رکھا
فاصلہ پاؤں پکڑتا رہا پہلے پہلے

ناخن بے خبری زخم بناتا ہی رہا
کوئے وحشت میں تو رستہ نہ تھا پہلے پہلے

اب تو اس شخص کا پیکر بھی گل خواب نہیں
جو کبھی مجھ میں تھا مجھ جیسا تھا پہلے پہلے

اب وہ پیاسا ہے تو ہر بوند بھی پوچھے نسبت
وہ جو دریاؤں پہ ہنستا رہا پہلے پہلے

وہ ملاقات کا موسم نہیں آیا اب کے
جو سر خواب سنورتا رہا پہلے پہلے

غم کا دریا مری آنکھوں میں سمٹ کر پوچھے
کون رو رو کے بچھڑتا رہا پہلے پہلے

اب جو آنکھیں ہوئیں صحرا تو کھلا ہر منظر
دل بھی وحشت کو ترستا رہا پہلے پہلے

میں تھی دیوار تو اب کس کا ہے سایہ تجھ پر
ایسا صحرا زدہ چہرا نہ تھا پہلے پہلے