دل کو آمادۂ وفا رکھیے
آندھیاں ہیں دیا جلا رکھیے
کتنی صدیوں کی برف پگھلی ہے
سیل کا راستہ کھلا رکھیے
بن کے لاوا بہے گا جوش نمو
اب نہ اس آگ کو دبا رکھیے
خون اہل نظر سے گلگوں ہے
خاک کا نام کیمیا رکھیے
جو سحر کی کرن سے پھوٹے ہیں
ان اندھیروں کا نام کیا رکھیے
جلتی شاموں کی اس چتا پہ جلیلؔ
اک نئی صبح کی بنا رکھیے

غزل
دل کو آمادۂ وفا رکھیے
حسن اختر جلیل