دل کتنا فریبی ہے اداکار نہ ہو جائے
یہ روزن در روزن دیوار نہ ہو جائے
اک خواب ترے وصل کی خوشبو سے رچا خواب
یہ خواب مجھے باعث آزار نہ ہو جائے
یہ ہنستے ہوئے لوگ یہ مہکے ہوئے منظر
یہ بھیڑ کہیں واقف اسرار نہ ہو جائے
دل ہے کسی امید کے سائے میں فروزاں
یک طرفہ تسلی کا سزا وار نہ ہو جائے
یہ وسوسۂ کون و مکاں حاصل تشکیک
وہ شخص کہیں مجھ میں گرفتار نہ ہو جائے
راحلؔ میں کسی شام کا بجھتا ہوا سورج
دنیا ہی کہیں میری عزادار نہ ہو جائے

غزل
دل کتنا فریبی ہے اداکار نہ ہو جائے
راحل بخاری