EN हिंदी
دل کسو سے تو کیا لگانا تھا | شیح شیری
dil kasu se to kya lagana tha

غزل

دل کسو سے تو کیا لگانا تھا

منتظر لکھنوی

;

دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
ہم کو منظور جی سے جانا تھا

آستاں تھا وہ آستانۂ عشق
کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا

دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں
زندگی کا فقط بہانہ تھا

نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں
ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا

جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق
ہائے وو کیا برا زمانہ تھا

کیوں دیا اس پری کو دل تو نے
کیا تو اے منتظرؔ دوانہ تھا