دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
ہم کو منظور جی سے جانا تھا
آستاں تھا وہ آستانۂ عشق
کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا
دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں
زندگی کا فقط بہانہ تھا
نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں
ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا
جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق
ہائے وو کیا برا زمانہ تھا
کیوں دیا اس پری کو دل تو نے
کیا تو اے منتظرؔ دوانہ تھا
غزل
دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
منتظر لکھنوی