دل کی صورت ترے سینے میں دھڑکتا ہوں میں
ہاں بظاہر ترے ہاتھوں کا کھلونا ہوں میں
اب جہاں چاند لب بام ابھرتا ہی نہیں
جانے کیوں پھر انہیں گلیوں سے گزرتا ہوں میں
کتنا نادان تھا میں ڈوب گیا جل بھی گیا
وہ بہت کہتا رہا آگ کا دریا ہوں میں
آرزو تھی کہ گلابوں کے دلوں میں رہتا
یہ سزا پائی کہ کانٹوں کا بچھونا ہوں میں
میرے پاس آ کے کوئی تشنہ لبی بھول گیا
میں تو سمجھا تھا کہ تپتا ہوا صحرا ہوں میں

غزل
دل کی صورت ترے سینے میں دھڑکتا ہوں میں
قیس رامپوری