دل کی مایوس تمناؤں کو مر جانے دو
درد کو آخری منزل سے گزر جانے دو
میں نے کب ساغر و صہبا سے کیا ہے انکار
نشۂ بادۂ ہستی تو اتر جانے دو
جس کی اے اہل چمن کی ہے لہو سے تعمیر
اب وہ شیرازۂ گلشن نہ بکھر جانے دو
چار تنکوں کی بھی تعمیر ہے کوئی تعمیر
فصل گل آئے گی رکھ لیں گے بکھر جانے دو
لذت غم سے تڑپنے میں مزہ آتا ہے
لذت غم سے طبیعت مری بھر جانے دو
انقلاب آئے گا کوئی کہ بہار آئے گی
خال و خد چہرۂ گیتی کے نکھر جانے دو
ہم سے بدلے ہوئے تیور ہیں زمانے کے سفیرؔ
اس نے دیکھی ہے ہماری بھی نظر جانے دو

غزل
دل کی مایوس تمناؤں کو مر جانے دو
محمد عباس سفیر