دل کی کیا قدر ہو مہماں کبھی آئے نہ گئے
اس مکاں میں ترے پیکاں کبھی آئے نہ گئے
آپ عشق گل و بلبل کی روش کیا جانیں
اندرون چمنستاں کبھی آئے نہ گئے
ہم نے گھر اپنا ہی وحشت میں بیاباں سمجھا
بھول کر سوئے بیاباں کبھی آئے نہ گئے
پھر بھی کرتے ہیں بیاں ملک عدم کا احوال
جیتے جی حضرت انساں کبھی آئے نہ گئے
سمجھیں وہ کیا کہ ہیں کس حال میں آسودۂ خاک
جو سر گور غریباں کبھی آئے نہ گئے
رکھ لیا عشق میں اشکوں نے بھرم رونے کا
یہ گہر تا سر مژگاں کبھی آئے نہ گئے
قدر کیا اہل زمانہ کو ہماری ہو رشیدؔ
ہم کہیں بن کے سخنداں کبھی آئے نہ گئے
غزل
دل کی کیا قدر ہو مہماں کبھی آئے نہ گئے
رشید رامپوری