دل کی جو آگ تھی کم اس کو بھی ہونے نہ دیا
ہم تو روتے تھے مگر آپ نے رونے نہ دیا
شمع کیوں پردۂ فانوس میں چھپ جاتی ہے
اس نے پروانے کو قربان بھی ہونے نہ دیا
یاد دلبر میں کبھی اے دل مضطر تو نے
ہم کو چپ چاپ کہیں بیٹھ کے رونے نہ دیا
آشیاں کا تو کوئی ذکر ہے کیا اے صیاد
جمع تنکوں کو کبھی برق نے ہونے نہ دیا
آستیں آنکھوں پر اس شوخ نے رکھ دی بازلؔ
رو رہا تھا مجھے کس واسطے رونے نہ دیا
غزل
دل کی جو آگ تھی کم اس کو بھی ہونے نہ دیا
اوما شنکر چترونشی بازل