دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
وہ میری بے خبری کی بھی خبر رکھتے ہیں
درد میں لطف خلش کیف کشش پاتا ہوں
کیا وہ پھر عزم تماشائے جگر رکھتے ہیں
جس طرف دیکھ لیا پھونک دیا طور مجاز
یہ ترے دیکھنے والے وہ نظر رکھتے ہیں
خود تغافل نے دیا مژدۂ بیداد مجھے
اللہ اللہ مرے نالے بھی اثر رکھتے ہیں
بے بسی دیکھ یہ سو بار کیا عہد کہ اب
تجھ سے امید نہ رکھیں گے مگر رکھتے ہیں
ہے ترے در کے سوا کوئی ٹھکانا اپنا
کیا کہیں تیرے اجاڑے ہوئے گھر رکھتے ہیں
کوئی اس جبر تمنا کی بھی حد ہے فانیؔ
ہم شب ہجر میں امید سحر رکھتے ہیں
غزل
دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
فانی بدایونی