دل کی دھڑکن الجھ رہی ہے یہ کیسی سوغات غزل کی
تار نفس پر انگلی رکھ دی چھیڑ کے تم نے بات غزل کی
اس کا چہرہ اس کی آنکھیں ایک قیامت ہائے محبت
تصویریں خود بتلاتی ہیں ساری تفصیلات غزل کی
وہی کہانی دہرائیں گے وہی نشانی پھر ڈھونڈیں گے
آدم اور حوا سے جڑی ہے اصل میں تلمیحات غزل کی
صفحۂ دل پر مصرعۂ تر کی شکل میں آنسو گرتے ہیں
درد کے بادل چھاتے ہیں تو ہوتی ہے برسات غزل کی
ہوا ہوئے وہ دن کہ غزل کرتی تھی بس محبوب سے بات
وقت کا منظر نامہ بدلا بدلی ترجیحات غزل کی
چولھے چوکے سے بے زاری فکر سخن اعصاب پہ طاری
جاگتے سوتے راہ نہاروں رخشاںؔ میں بن رات غزل کی

غزل
دل کی دھڑکن الجھ رہی ہے یہ کیسی سوغات غزل کی
رخشاں ہاشمی