دل کی دہلیز پہ دلبر آیا
پیاس کے در پہ سمندر آیا
چلتے چلتے تری خوشبو آئی
میں یہ سمجھا کہ ترا گھر آیا
دھوپ میں چھاؤں نمودار ہوئی
کون آخر سر محشر آیا
اصل میں تھی وہ ہوائی آہٹ
میں بڑی تیزی سے باہر آیا
تھیں خطائیں تو سراسر دل کی
زد میں آیا تو مرا سر آیا
چھوٹ کر تجھ سے کہیں جا نہ ملی
لوٹ کر پھر ترے در پر آیا
اس کو لوٹا دئیے سب اس کے خطوط
ہائے نادان یہ کیا کر آیا
یار آیا کہ نہ آیا اطیبؔ
نامۂ یار برابر آیا
غزل
دل کی دہلیز پہ دلبر آیا
اطیب اعجاز