دل کی بساط کیا تھی جو صرف فغاں رہا
گھر میں ذرا سی آگ کا کتنا دھواں رہا
شب بھر خیال گیسوئے عنبر فشاں رہا
مہکا ہوا شمیم سے سارا مکاں رہا
کیا کیا نہ کاوشوں پہ مری آسماں رہا
بجلی گرائی مجھ پہ نہ جب آشیاں رہا
محشر بھی کوئی درد ہے جو اٹھ کے رہ گیا
شکوہ بھی کوئی غم ہے جو دل میں نہاں رہا
خورشید آسماں پہ رہا تو زمیں پہ ہے
میزان حسن میں ترا پلہ گراں رہا
جینے میں کیا مزا جو نہیں موت کا یقیں
مرنے میں لطف کیا ہے جو وہ بدگماں رہا
کثرت حجاب دیدۂ عارف کبھی نہیں
ذروں میں ایک مہر کا جلوہ عیاں رہا
بیمار ہجر موت سے اٹھ کر لپٹ گیا
وعدہ پہ آیا جب کوئی تیرا گماں رہا
دل بھی گیا جگر بھی گیا جان بھی گئی
میں پھر بھی دیکھتا ہی تری شوخیاں رہا
اے شعلہؔ کیا طبیعت نازک پہ زور دوں
قدر سخن رہی نہ کوئی قدرداں رہا
غزل
دل کی بساط کیا تھی جو صرف فغاں رہا
شعلہؔ علی گڑھ