دل خوں ہے غم سے اور جگر یک نشد دو شد
لب خشک ہیں تو چشم ہے تر یک نشد دو شد
رسوا تو نالہ کر کے ہوئے لیکن اس نے یار
دل میں ترے کیا نہ اثر یک نشد دو شد
اول تو ہم کو طاقت پرواز ہی نہ تھی
تس پر بریدہ ہو گئے پر یک نشد دو شد
پایا نہ ہم نے سود محبت میں یار کی
اس پر بھی پہنچتا ہے ضرر یک نشد دو شد
چھڑکا مرے جگر پہ نمک غیر سے رہا
پیوستہ مثل شیر و شکر یک نشد دو شد
آوارہ جوں صبا ہوں پر اب جستجوئے یار
رکھتی ہے مجھ کو خاک بسر یک نشد دو شد
مشکل تھا دیکھنا ہی ترا تس پہ روز وصل
لائی نہ چشم تاب نظر یک نشد دو شد
نالاں ہم اپنے اشک کے ہاتھوں تھے اب بقاؔ
بہنے لگیں ہیں لخت جگر یک نشد دو شد
غزل
دل خوں ہے غم سے اور جگر یک نشد دو شد
بقا اللہ بقاؔ