دل کے تاتار میں یادوں کے اب آہو بھی نہیں
آئینہ مانگے جو ہم سے وہ پری رو بھی نہیں
دشت تنہائی میں آواز کے گھنگرو بھی نہیں
اور ایسا بھی کہ سناٹے کا جادو بھی نہیں
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں
چاہتے ہیں رہ مے خانہ نہ قدموں کو ملے
لیکن اس شوخی رفتار پہ قابو بھی نہیں
تلخیاں نیم کے پتوں کی ملی ہیں ہر سو
یہ مرا شہر کسی پھول کی خوشبو بھی نہیں
جانے کیا سوچ کے ہم رک گئے ویرانوں میں
پرتو رخ بھی نہیں سایۂ گیسو بھی نہیں
حسن امروز کو تشبیہوں میں تولیں کیسے
اب وہ پہلے سے خم کاکل و ابرو بھی نہیں
ہم نے پائی ہے ان اشعار پہ بھی داد زبیرؔ
جن میں اس شوخ کی تعریف کے پہلو بھی نہیں
غزل
دل کے تاتار میں یادوں کے اب آہو بھی نہیں
زبیر رضوی