EN हिंदी
دل کے صحرا میں کوئی آس کا جگنو بھی نہیں | شیح شیری
dil ke sahra mein koi aas ka jugnu bhi nahin

غزل

دل کے صحرا میں کوئی آس کا جگنو بھی نہیں

نور بجنوری

;

دل کے صحرا میں کوئی آس کا جگنو بھی نہیں
اتنا رویا ہوں کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں

اتنی بے رحم نہ تھی زیست کی دوپہر کبھی
ان خرابوں میں کہیں سایۂ گیسو بھی نہیں

کاسۂ درد لیے پھرتی ہے گلشن کی ہوا
میرے دامن میں ترے پیار کی خوشبو بھی نہیں

چھن گیا میری نگاہوں سے بھی احساس جمال
تیری تصویر میں پہلا سا وہ جادو بھی نہیں

موج در موج ترے غم کی شفق کھلتی ہے
مجھ کو اس سلسلۂ رنگ پہ قابو بھی نہیں

دل وہ کم بخت کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے
یہ الگ بات کہ تو زینت پہلو بھی نہیں

یہ عجب راہ گزر ہے کہ چٹانیں تو بہت
اور سہارے کو تری یاد کے بازو بھی نہیں

حادثہ یہ بھی گزرتا تھا مری جاں ہم پر
پیکر سنگ ہیں دو، میں بھی نہیں تو بھی نہیں