دل کے صحرا میں بڑے زور کا بادل برسا
اتنی شدت سے کوئی رات مجھے یاد آیا
جس سے اک عمر رہا دعویٔ قربت مجھ کو
ہائے اس نے نہ کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھا
تو مری منزل مقصود ہے لیکن ناپید
میں تری دھن میں شب و روز بھٹکنے والا
پھیل جاتا ترے ہونٹوں پہ تبسم کی طرح
کاش حالات کا پہلو کبھی ہو ایسا
کتنی شدت سے ترے عارض و لب یاد آئے
جب سر شام افق پر کوئی تارہ چمکا
اب کے اس طور سے آئی تھی گلستاں میں بہار
دامن شاخ میں سوکھا ہوا پتا بھی نہ تھا
داستاں غم کی اسے تابؔ سناتے کیوں ہو
کب رگ سنگ سے خوں کا کبھی دھارا نکلا
غزل
دل کے صحرا میں بڑے زور کا بادل برسا
تاب اسلم