دل کے مکاں میں آنکھ کے آنگن میں کچھ نہ تھا
جب غم نہ تھا حیات کے دامن میں کچھ نہ تھا
یہ تو ذرا بتاؤ ہمیں اہل کارواں
ان رہبروں میں کیا ہے جو رہزن میں کچھ نہ تھا
ظلمت کا جب طلسم نہ ٹوٹا نگاہ سے
روشن ہوا کہ دیدۂ روشن میں کچھ نہ تھا
وہ تو بہار کا ہمیں رکھنا پڑا بھرم
ورنہ یہ واقعہ ہے کہ گلشن میں کچھ نہ تھا
مجھ پر بطور خاص تھی اس کی نگاہ لطف
کہتا میں کس طرح مرے دشمن میں کچھ نہ تھا
یہ بھی درست ہے کہ نشیمن میں برق تھی
یہ بھی غلط نہیں کہ نشیمن میں کچھ نہ تھا
فاضلؔ رخ حیات پہ یوں تھیں مسرتیں
جیسے غم حیات کی الجھن میں کچھ نہ تھا

غزل
دل کے مکاں میں آنکھ کے آنگن میں کچھ نہ تھا
فاضل انصاری