دل کے داغوں میں ستاروں کی چمک باقی ہے
شب فرقت ابھی دو چار پلک باقی ہے
سرخ ہونٹوں کے دیے ذہن میں روشن ہیں ابھی
ابھی افکار میں زلفوں کی مہک باقی ہے
بازوؤں میں ترے پیکر کی لطافت رقصاں
انگلیوں میں تری باہوں کی لچک باقی ہے
قصر پرویز میں گم ہو گئی شیریں کی صدا
دامن کوہ میں تیشے کی دھمک باقی ہے
صرصر جور نے ہر چند خزاں بکھرائی
پھول میں آگ شگوفوں میں لہک باقی ہے
گل کھلائے گی ابھی اور نہ جانے کیا کیا
یہ جو پہلو میں مہکتی سی کسک باقی ہے
غزل
دل کے داغوں میں ستاروں کی چمک باقی ہے
نور بجنوری