دل کے آنگن میں جو دیوار اٹھا لی جائے
ایک کھڑکی بھی محبت کی بنا لی جائے
پاک سیرت ہیں بہت نور کا پیکر ہیں وہ
ذہن میں حسن کی تصویر بنا لی جائے
زیر کرنے کے لئے لاکھ طریقے ڈھونڈو
کیا ضروری ہے کہ دستار اچھالی جائے
ذہن چاہت کی ہی خوشبو سے معطر ہوگا
ذہن میں بات عداوت کی نہ پالی جائے
عام رستہ ہے یہاں بھیڑ ملے گی تم کو
مطلبی راہ پہ یہ زیست نہ ڈھالی جائے
ایک کم ظرف کے احسان تلے دب جانا
اس سے بہتر ہے کہ کشکول اٹھا لی جائے
کیجیے آپ تو مہمان نوازی ساجدؔ
گر ہے زحمت تو یہ زحمت بھی اٹھا لی جائے

غزل
دل کے آنگن میں جو دیوار اٹھا لی جائے
ساجد پریمی