دل کا معاملہ نگۂ آشنا کے ساتھ
ایسے ہے جیسے رابطۂ گل صبا کے ساتھ
دیکھو تو پیچ و تاب کی صورت کہ مل گئی
شام فراق بھی تری زلف دوتا کے ساتھ
یہ کیا بہار ہے کہ دکھائی گئی مجھے
شعلوں کی آنچ بھی گل رنگیں قبا کے ساتھ
یہ کیا طلسم ہے کہ سنایا گیا مجھے
ساز شکست دل تری آواز پا کے ساتھ
اے دوستو یہی ہے قیامت کی روز حشر
ہم بھی جگائے جائیں گے خلق خدا کے ساتھ
گلشن میں آئی پیرہن رنگ بن گئی
وہ موج خوں کہ چہرہ کشا تھی حنا کے ساتھ
عابدؔ بیان جلوۂ ناگاہ کیا کروں
خوبی ادا کے ساتھ ہے شوخی حیا کے ساتھ
غزل
دل کا معاملہ نگۂ آشنا کے ساتھ
سید عابد علی عابد