دل کا دلبر جب سے دل کی دھڑکن ہونے والا ہے
سونا سونا میرا آنگن گلشن ہونے والا ہے
اس کی آنکھوں میں بھی ہر دم عکس مرا ہی رہتا ہے
اب تو میرا چہرہ اس کا درپن ہونے والا ہے
ناز کروں یا فخر کروں میں سب کچھ ہے لازم مجھ کو
رفتہ رفتہ دل میں اس کا مسکن ہونے والا ہے
پیار کے جذبے اس کے دل میں جاگے ہیں اور جاگیں گے
میری قسمت کا بھی تارا روشن ہونے والا ہے
اس سے مل کر دل کا جنگل بھیگ رہا ہے اس کے ایسے
ساون سے بھی پہلے جیسے ساون ہونے والا ہے
دیکھ کے اس کی سندرتا کو سب سندر ہو جاتے ہیں
اس کی گلی کا ہر اک چہرہ کندن ہونے والا ہے
اس کی محبت کے صدقے میں اس کی موہک چاہت میں
اب تو ضیاؔ کا بھاگ یقیناً روشن ہونے والا ہے

غزل
دل کا دلبر جب سے دل کی دھڑکن ہونے والا ہے
سید ضیا علوی