دل کا چھالا پھوٹا ہوتا
کاش یہ تارا ٹوٹا ہوتا
شیشۂ دل کو یوں نہ اٹھاؤ
دیکھو ہاتھ سے چھوٹا ہوتا
چشم حقیقت بیں اک ہوتی
باغ کا بوٹا بوٹا ہوتا
خیر ہوئی اے جنبش مژگاں
زخم کا ٹانکا ٹوٹا ہوتا
آج عزیزؔ اس شوخ نظر نے
خانۂ دل کو لوٹا ہوتا

غزل
دل کا چھالا پھوٹا ہوتا
عزیز لکھنوی