دل جو امیدوار ہوتا ہے
تیر غم کا شکار ہوتا ہے
جب ترا انتظار ہوتا ہے
دل مرا بے قرار ہوتا ہے
یہ ہی فصل جنوں کی ہے تمہید
پیرہن تار تار ہوتا ہے
آنکھ ملتے ہی اس ستم گر سے
تیر سینے کے پار ہوتا ہے
مسکراہٹ لبوں پہ ہے ان کے
دل مرا اشک بار ہوتا ہے
اس کا کرتے ہیں اعتبار کہ جو
قابل اعتبار ہوتا ہے
اٹھ کے پہلو سے جا رہا ہے کوئی
کیا یہ پروردگار ہوتا ہے
کیا بتاؤں تری جدائی میں
جو مرا حال زار ہوتا ہے
شام غم انتظار میں ان کے
موت کا انتظار ہوتا ہے
ان کے جانے کا نام سن کر رازؔ
کچھ عجب حال زار ہوتا ہے
غزل
دل جو امیدوار ہوتا ہے
بشیر الدین راز