دل جو تیشہ زنی پہ مائل ہے
کچھ نہ کچھ راستے میں حائل ہے
تو جو حیرت زدہ نہیں ہوتا
تو مری گفتگو کا قائل ہے
میں مسافر ہوں کہنہ رسموں کی
میرے آگے رہ قبائل ہے
کیا سناؤں میں حال دل کہ یہ دل
تیری کج فہمیوں سے گھائل ہے
رقص کرتا ہے حرف حرف مرا
میرے لہجے میں کون پائل ہے
میرے پیروں کو ڈسنے والا سانپ
میری گردن میں کیوں حمائل ہے

غزل
دل جو تیشہ زنی پہ مائل ہے
بلقیس خان