EN हिंदी
دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا | شیح شیری
dil jo ghabraya to uTh kar doston mein aa gaya

غزل

دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا

ریاض ساغر

;

دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا
میں کہ آئینہ تھا لیکن پتھروں میں آ گیا

آج اس کے بال بھی گرد سفر سے اٹ گئے
آج وہ گھر سے نکل کر راستوں میں آ گیا

پڑھ رہا ہوں اس کتاب جسم کی اک اک ورق
نور سب آنکھوں کا کھنچ کر انگلیوں میں آ گیا

لوگ کہتے ہیں کہ اپنا شہر ہے لیکن مجھے
یوں گماں ہوتا ہے جیسے دشمنوں میں آ گیا

ہم بھرے بازار میں اس وقت سولی پر چڑھے
شہر سارا ٹوٹ کر جب کھڑکیوں میں آ گیا

شب‌ زدوں نے روشنی مانگی تو سورج دفعتاً
آسمانوں سے اتر کر بستیوں میں آ گیا

جب سمیٹا میں نے اپنے ریزہ ریزہ جسم کو
اور بھی کچھ زور ساغرؔ آندھیوں میں آ گیا