دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا
میں کہ آئینہ تھا لیکن پتھروں میں آ گیا
آج اس کے بال بھی گرد سفر سے اٹ گئے
آج وہ گھر سے نکل کر راستوں میں آ گیا
پڑھ رہا ہوں اس کتاب جسم کی اک اک ورق
نور سب آنکھوں کا کھنچ کر انگلیوں میں آ گیا
لوگ کہتے ہیں کہ اپنا شہر ہے لیکن مجھے
یوں گماں ہوتا ہے جیسے دشمنوں میں آ گیا
ہم بھرے بازار میں اس وقت سولی پر چڑھے
شہر سارا ٹوٹ کر جب کھڑکیوں میں آ گیا
شب زدوں نے روشنی مانگی تو سورج دفعتاً
آسمانوں سے اتر کر بستیوں میں آ گیا
جب سمیٹا میں نے اپنے ریزہ ریزہ جسم کو
اور بھی کچھ زور ساغرؔ آندھیوں میں آ گیا

غزل
دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا
ریاض ساغر