دل جس سے کانپتا ہے وہ ساعت بھی آئے گی
وہ آئے گا تو کوئی مصیبت بھی آئے گی
میں آج تیری راہ کا پتھر سہی مگر
کل تجھ کو پیش میری ضرورت بھی آئے گی
جھیلے ہیں اپنی جان پہ ہم نے وہ حادثے
دل مانتا نہیں کہ قیامت بھی آئے گی
اس کی کشیدگی کا سبب کچھ بھی ہو مگر
مجھ کو گماں نہ تھا کہ یہ نوبت بھی آئے گی
اے رہ نورد سایۂ اشجار ہی نہیں
کچھ تیرے کام دھوپ کی حدت بھی آئے گی
کیا فائدہ جو اپنی صفائی میں کچھ کہوں
میں جانتا تھا مجھ پہ یہ تہمت بھی آئے گی
غزل
دل جس سے کانپتا ہے وہ ساعت بھی آئے گی
راشد مفتی