دل جلایا تری خوشی کے لیے
یا خود اپنی ہی آگہی کے لیے
ہاتھ پر رکھ کے اپنی روح تپاں
ہم چلے اپنی رہبری کے لیے
نور کی محفلوں میں رہتے ہیں
جو ترستے ہیں روشنی کے لیے
کتنے آلام سہہ گئے ہم لوگ
ایک بے نام سی ہنسی کے لیے
آب حیواں بھی گر ملے تو نہ لیں
اپنے معیار تشنگی کے لیے
پھر کوئی قہر حضرت یزداں
کوئی تحریک بندگی کے لیے
غزل
دل جلایا تری خوشی کے لیے
پروین فنا سید