EN हिंदी
دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا | شیح شیری
dil jal raha tha gham se magar naghma-gar raha

غزل

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا

منیر نیازی

;

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا میں ساتھ مرے یہ ہنر رہا

صبح سفر کی رات تھی تارے تھے اور ہوا
سایا سا ایک دیر تلک بام پر رہا

میری صدا ہوا میں بہت دور تک گئی
پر میں بلا رہا تھا جسے بے خبر رہا

گزری ہے کیا مزے سے خیالوں میں زندگی
دوری کا یہ طلسم بڑا کارگر رہا

خوف آسماں کے ساتھ تھا سر پر جھکا ہوا
کوئی ہے بھی یا نہیں ہے یہی دل میں ڈر رہا

اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیرؔ
جانے کا اس کے رنج مجھے عمر بھر رہا