دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
دیوانہ وار سلسلہ جنبان نالہ تھا
نالے سے میرے کیا ہے ہوائی کو ہم سری
تیر شہاب رات کو قربان نالہ تھا
ڈھونڈوں نہ کیونکہ دل کو میں اے آہوان دشت
سینے میں وہ تو شیر نیستان نالہ تھا
کرتا تھا جن دنوں یہ فلک ہم سے سرکشی
ناوک زنی کا آہ سے پیمان نالہ تھا
عشق بتاں تھا دل سے جو دم ساز مثل نے
ہر دم اثر میں تابع فرمان نالہ تھا
صیاد کے جگر میں کرے تھا سناں کا کام
مرغ قفس کے سر پہ یہ احسان نالہ تھا
گاڑے فلک پہ کیا یہ دل ناتواں علم
وہ دن گئے جو اوج فراوان نالہ تھا
کل شب کو ذکر تھا جو کسی نیزہ باز کا
عاشق کا تیرے چرخ ثنا خوان نالہ تھا
یاروں کے قافلے کی مجھے جب کہ یاد تھی
سینے میں جوں جرس مرے سامان نالہ تھا
مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ
میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا
لینے کو اختران فلک سے خراج و باج
ہر آن شعلہ و شرر افشان نالہ تھا
غزل
دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
شاہ نصیر