دل ہو حساس تو جینے میں بہت گھاٹا ہے
میں نے خود اپنے ہی زخموں کا لہو چاٹا ہے
مجھ پہ احساں ہے مری تیشہ بکف سانسوں کا
زندگی تجھ کو پہاڑوں کی طرح کاٹا ہے
ڈوب کر دیکھ سمندر ہوں میں آوازوں کا
طالب حسن سماعت مرا سناٹا ہے
میں چٹانوں کی طرح جن کی کمیں گاہ بنا
رفتہ رفتہ انہیں لہروں نے مجھے چاٹا ہے
مر چکا ہوں میں کئی بار جہاں کے ہاتھوں
اپنی لاشوں سے مظفرؔ یہ کنواں پاٹا ہے
غزل
دل ہو حساس تو جینے میں بہت گھاٹا ہے
مظفر وارثی