EN हिंदी
دل ہی رہ طلب میں نہ کھونا پڑا مجھے | شیح شیری
dil hi rah-e-talab mein na khona paDa mujhe

غزل

دل ہی رہ طلب میں نہ کھونا پڑا مجھے

اختر مسلمی

;

دل ہی رہ طلب میں نہ کھونا پڑا مجھے
ہاتھ اپنی زندگی سے بھی دھونا پڑا مجھے

اک دن میں ہنس پڑا تھا کسی کے خیال میں
تا عمر اتنی بات پہ رونا پڑا مجھے

اک بار ان کو پانے کی دل میں تھی آرزو
سو بار اپنے آپ کو کھونا پڑا مجھے

برباد ہو گیا ہوں مگر مطمئن ہے دل
شرمندۂ کرم تو نہ ہونا پڑا مجھے

دیکھی گئی نہ مجھ سے جو طوفاں کی بے بسی
کشتی کو اپنی آپ ڈبونا پڑا مجھے

جلوے کہاں کسی کے بساط نظر کہاں
ذرے میں آفتاب سمونا پڑا مجھے

اخترؔ جنون عشق کے ماروں کو دیکھ کر
اہل خرد ہنسے ہیں تو رونا پڑا مجھے