دل ہی نہیں تو دل کے سہاروں کو کیا کروں
جب پاس تم نہیں تو بہاروں کو کیا کروں
جلووں سے جس کے چاند ستاروں میں تھی ضیا
اب وہ حسیں نہیں تو ستاروں کو کیا کروں
تصویر اور تصور جاناں یہ سب فریب
میں ان سے دور ان کے نظاروں کو کیا کروں
گو جنت نگاہ ہوں فردوس رنگ ہوں
گزری ہوئی حسین بہاروں کو کیا کروں
خوابوں سے نورؔ چھین لیا ہے خیال یار
تیرے بغیر تیرے اشاروں کو کیا کروں
غزل
دل ہی نہیں تو دل کے سہاروں کو کیا کروں
نور اندوری