دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے
اٹھ اور سنبھل گھر سے نکل اور پاس اس چنچل کے چل
دیکھی جو اس محبوب کی ہم نے جھلک ہے کل کی کل
پائی ہر اک تعویذ میں اپنے دل بیکل کی کل
جب ناز سے ہنس کر کہا اس نے ارے چل کیا ہے تو
کیا کیا پسند آئی ہیں اس نازنیں چنچل کی چل
ہے وہ کف پا نرم تر اس کی کہ وقت ہم سری
ڈالے کف پائے صنم نرمی وہیں مخمل کی مل
ہم ہیں تمہارے مبتلا مدت سے ہے یہ آرزو
بیٹھو ہمارے پاس بھی اے جاں کبھی اک پل کی پل
ہے دم غنیمت اے نظیرؔ اب میکدے میں بیٹھ کر
تو آج تو مے پی میاں پھر دیکھ لیجو کل کی کل
غزل
دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے (ردیف .. ل)
نظیر اکبرآبادی