EN हिंदी
دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے (ردیف .. ل) | شیح شیری
dil har ghaDi kahta hai yun jis taur se ab ho sake

غزل

دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے (ردیف .. ل)

نظیر اکبرآبادی

;

دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے
اٹھ اور سنبھل گھر سے نکل اور پاس اس چنچل کے چل

دیکھی جو اس محبوب کی ہم نے جھلک ہے کل کی کل
پائی ہر اک تعویذ میں اپنے دل بیکل کی کل

جب ناز سے ہنس کر کہا اس نے ارے چل کیا ہے تو
کیا کیا پسند آئی ہیں اس نازنیں چنچل کی چل

ہے وہ کف پا نرم تر اس کی کہ وقت ہم سری
ڈالے کف پائے صنم نرمی وہیں مخمل کی مل

ہم ہیں تمہارے مبتلا مدت سے ہے یہ آرزو
بیٹھو ہمارے پاس بھی اے جاں کبھی اک پل کی پل

ہے دم غنیمت اے نظیرؔ اب میکدے میں بیٹھ کر
تو آج تو مے پی میاں پھر دیکھ لیجو کل کی کل